حرفِ آغاز
ہندی تحریک استشراق
اور علماء
حبیب الرحمن اعظمی
تیرہویں
صدی عیسوی میں جبکہ عیسائی دنیا اسلام
کے خلاف برپا کی ہوئی اپنی صلیبی جنگوں میں
پے درپے ناکام ہونا شروع ہوئی تو اس کے مفکرین اور نظریہ سازوں
کو یہ یقین ہوگیا کہ موجودہ حالات میں طاقت وقوت
اور تشدد وجارحیت کے ذریعہ اسلام کو مذہبی وسیاسی
اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا ہے چنانچہ غور وفکر کے بعد انھوں نے
طے کیا کہ سردست اپنی جارحانہ مہم کو ملتوی کرکے علم وتحقیق
کے عنوان سے اسلام کو نشانہ بنانا چاہئے اور تلوار کی بجائے قلم سے اسلام کی
بیخ کنی کی جائے۔ اسلام دشمن مغربی مفکرین کا
یہی پرفریب منفی نظریہ ”تحریک مستشرقین“
کا نقطہ آغاز ہے۔ چنانچہ اس منصوبہ کے تحت عیسائی مبلغین
اور ان کے ساتھ یہودی علماء بھی اسلامیات کے مطالعہ کے
لئے وقف کردئیے گئے۔ اس تحریک کا ایک بنیادی
مقصد مذہب عیسوی کی اشاعت وتبلیغ کے لئے رجال کار مہیا
کرنا اور اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا ہے جس سے مسیحیت
کی برتری اور ترجیح خود بخود ثابت ہوجائے اور نئے تعلیم یافتہ
لوگوں کے لئے مسیحیت میں کشش پیدا ہو۔
یہ مستشرقین
قرآن وحدیث، سیرت نبوی، فقہ اسلامی اور اخلاق وتصوف کا
مطالعہ اس مقصد سے کرتے ہیں کہ ان میں خامیاں نکالی جائیں
اور پھر انھیں اپنے دینی وسیاسی مقصد کے لئے
استعمال کیا جائے، ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلے اسلام کے
خلاف ایک باطل اور شرانگیز بات طے کرلیتے ہیں اور پھر اس
کے اثبات کے لئے ہر طرح کے رطب ویابس، تاریخ، حدیث وسیرت،
یہاں تک کہ افسانہ و شاعری کے غیرمستند ذخیرہ سے مواد
فراہم کرنے کی غیرمعقول کوشش کرتے ہیں اور جہاں کہیں سے
بھی مقصد برآری ہوتی ہو خواہ وہ علمی اصول کے رو سے صحت
واسناد کے اعتبار سے کتنا ہی مشکوک ومجروح کیوں نہ ہو اس کو پوری
جسارت سے بڑے آب وتاب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
قرآن، حدیث،
سیرت نبوی، فقہ وکلام، سیرت صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین،
اکابر محدثین، فقہاء وقضاة، مشائخ سلوک، رواة حدیث، اسماء رجال، فن
جرح وتعدیل، جمع قرآن، تدوین حدیث، حجیت حدیث وغیرہ
ہر ایک موضوع کے متعلق مستشرقین کی تصانیف اور نام نہاد تحقیقات
میں اس قدر مواد پایا جاتا ہے جو ایک ایسے ذہین
وحساس آدمی کو جو ان موضوعات پر وسیع اور گہری نظر نہ رکھتا ہو
اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کردینے اور سلف صالحین
وعلمائے راسخین کی شخصیتوں کو مجروح کردینے اور ان سے
اعتماد ختم کردینے کے لئے کافی ہے۔ واقعی علم وتحقیق
کی رو سے ان مشکوک ومشتبہ لٹریچر کو یہ لوگ سائنٹفک اور سسٹمیٹک
(اصولی مطالعہ) جیسے بھاری بھرکم اور مرعوب کن عنوان سے پیش
کرتے ہیں جس کی بناء پر کچے ذہن اور سطحی علم رکھنے والے ان کے
دام فریب میں آجاتے ہیں۔ بالخصوص یونیورسٹیوں
اور مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے اکثر لوگ اس بھنور میں
پھنس چکے ہیں۔
ڈاکٹر مصطفی
سباعی مرحوم اپنی مشہور کتاب ”المستشرقون والاسلام“ میں مستشرقین
کے پھیلتے ہوئے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس نصف صدی کے اندر عالم اسلام میں
اصلاح وترقی (بالفاظ واضح تجدد ومغربیت) کے جتنے علم بردار پیدا
ہوئے ان کے خیالات، اشتہارات، اعلانات اور طریق کار میں مستشرقین
کی دعوت وتلقین کے اثرات صاف طور پر نظر آتے ہیں۔ بلکہ
اگر یہ بات کہی جائے کہ اصلاح و ترقی کے داعی ان مصلحین
کے فکر وعمل کی اساس مستشرقین کے پیداکردہ خیالات ہیں
تو حقیقت سے بعید نہیں ہوگی۔“
ان مستشرقین
نے ایک طرف اسلامی تعلیمات اور دینی افکار کی
تحقیر کا کام کیا اور مسیحی افکار و اقدار کی عظمت
نمایاں کیں، پھر اسلامی اصول وقواعد کی ایسی
تشریح پیش کی جس سے از خود اسلامی اقدار کی کمزوری
ثابت ہوجائے تاکہ ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان کا رابطہ
اسلام سے کمزور پڑجائے اور وہ اسلام کے بارے میں متشکک ہوجائے یا کم
از کم یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائے کہ اسلام موجودہ عہد کے مزاج کا ساتھ دینے
سے عاجز اور ضروریات وقت وتقاضائے زمانہ کو پورا کرنے سے درماندہ اور قاصر
ہے ایک طرف انھوں نے بدلتی ہوئی زندگی، تغیرپذیر
زمانہ اور تہذیب و ترقی کا نام لے کر خداکے آخری، ابدی
اور کامل دین پر عمل کو روایت پرستی، رجعت اور بنیادپرستی
کا غیرپسندیدہ نام دیا اور دوسری جانب اس کے برعکس قدیم
ترین تہذیبوں اور زبانوں کے احیاء کی دعوت دی جو
زندگی کی صلاحیت اور ہر طرح کی افادیت کھوکر ماضی
کے ملبہ کے نیچے سیکڑوں ہزاروں برس سے دفن تھیں، ان بے سود تہذیبوں
کی بازیافت کی سعی کا مقصد مسلم معاشرہ میں انتشار
پیدا کرکے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور جاہلیت قدیمہ
کو زندہ کرنے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ چنانچہ مستشرقین کے اس
دعوت و تلقین کے زیراثر ان کے شاگردان رشید کے ذریعہ مصر
میں فرعونی، عراق میں آشوری، شمالی افریقہ میں
بربری، فلسطین ولبنان کے ساحل پر ہٹی تہذیب و زبان کے احیاء
کی تحریکوں کا آغاز ہوا اور ان ملکوں میں ان کے مستقل داعی
ومبلغ پیدا ہوگئے۔ جن کی جانب سے پوری قوت اور شدومد کے
ساتھ یہ بھی کہاگیا کہ قرآن کی عربی زبان زمانہ کی
ضروریات اور تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی اس کے بجائے عوامی
زبان کو رواج دینا چاہئے اور انہی کو اخبارات اور علمی کتابوں کی
زبان بنانا چاہئے۔
اس سے بھی ایک
قدم آگے بڑھ کر مستشرقین نے یوروپ،امریکہ، کناڈا وغیرہ میں
قائم اسلامیات کی تحقیقات کے نام نہاد اداروں کے دروازے
مسلمانوں کے لئے کھول دئے۔ اور اسکالرشپ کے عنوان سے بڑے بڑے وظیفہ دے
کر مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی طرف کھینچ
لیا اور نام نہاد سائنٹفک اور اصولی مطالعہ کے عنوان سے ان کے ذہن کو
نہ صرف مسموم کیا بلکہ انھیں اپنے سانچہ میں ڈھال لیا۔
مستشرقین کے
یہ شاگردان رشید جب مشرقی ممالک بالخصوص ہندوپاک، مصر ولبنان وغیرہ
میں آئے تو انھوں نے اپنے زہریلے قلم وزبان سے اپنے استادان مغرب کی
ترجمانی کی اور یونیورسٹیوں وعلمی اداروں کے
ماحول کو اسلامی تعلیمات واقدار کے حق میں خراب کردیا۔
انھوں نے اپنے مربیان مغرب کے پڑھائے ہوئے سبق کے مطابق خود کو روشن خیال،
تجددپسند، مصلح دین اور محقق ومفکرظاہر کیا اور اپنے باطل طریقہ
کار کو سائنٹفک اور سسٹمیٹک (اصولی مطالعہ) بتایا اور اس کے
بالمقابل سلف صالحین مصلحین ومجددین اور علمائے حق کے طریقہ
کو دقیانوسیت، انتہاپسندی، غیرمعقول وغیرہ سے تعبیر
کیا۔
اس سے بھی
آگے بڑھ کر اسی تحریک کے زیراثر ہندوستان کی کچھ یونیورسٹیوں
میں اسلامک اسٹڈیز کے نام سے تحقیقی مراکز قائم کئے گئے
جس کے نصاب کو مستشرقین کے امریکی و مغربی اداروں کے نصاب
کے مطابق رکھا گیا اور ان مراکز کا ذمہ دار ایسے لوگوں کو بنایاگیا
جو مستشرقین کے خاص شاگرد تھے جنھوں نے اسلامی تعلیمات اوراس کے
افکار واقدار کو مسخ کرنے میں اپنے استادانِ مغرب کی پوری پوری
پیروی کی۔
مستشرقین یہود
ونصاریٰ کے ان شاگردوں کا ہندوستان میں ایک جدید
نعرہ ”اجتہاد“ ہے۔ یہ ہندی مستشرقین اس بات پر مصر ہیں
کہ اجتہاد کا حق ہر اس شخص کو حاصل ہے جو قرآن کے ترجمہ کو کسی زبان میں
پڑھ سکتا ہو۔ ان کے نزدیک مجتہد کو عربی زبان، صرف ونحو، لغت،
بلاغت، تفسیر، علومِ تفسیر، حدیث، علوم حدیث، آثارِ صحابہ،
فقہ، کلام، اصولِ فقہ، ناسخ ومنسوخ وغیرہ علوم کے جاننے کی قطعاً کوئی
ضرورت نہیں ہے۔
یہ ہندی
مستشرقین اسلامیات کی تحقیق کے نام پر ملک گیر
ادارے قائم کرنے کی تحریک چلارہے ہیں اور ان کی دعوت وتلقین
پر مسلمانوں کے ذریعہ قائم یونیورسٹیوں کے علاوہ ملک کے
بڑے شہروں میں اس قسم کے ادارے قائم کئے جارہے ہیں اور اسلام کے نام
پر اسلام کو مضمحل اور کمزور اور عیسائیت کو مضبوط اور توانا کیا
جارہا ہے جس سے ملک میں پھیلی عیسائی مشنریوں
کو براہِ راست قوت حاصل ہورہی ہے اور اس وقت ان کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے
ہیں کہ وہ ملک کے بہت سے علاقوں میں کھلے عام مسلمانوں میں عیسائیت
کی تبلیغ ودعوت کا کام کررہے ہیں اور صحیح دین سے
ناواقف مسلمان ان کے دامِ فریب میں مبتلا بھی ہورہے ہیں۔
مدارس دینیہ
اور مسلم تنظیموں سے متعلق علماء دین کے لئے یہ ایک لمحہ
فکریہ بلکہ کھلا چیلنج ہے، اس ملک میں دین ومذہب کے تحفظ
وبقاء کی ذمہ داری انہیں علماء پر ہے آج کے اس مغربیت زدہ
دور میں بھی عام مسلمانوں کا ایک حد تک رابطہ علماء سے قائم ہے
اپنے معاملات ومسائل میں وہ علماء کی جانب آج بھی دیکھتے
ہیں اگر خدانخواستہ علماء نے وقت کے اس چیلنج کی جانب توجہ نہیں
کی تو یہ رہا سہا رابطہ باقی نہیں رہ سکے گا اور اس رابطہ
کے ٹوٹ جانے کے بعد اس امت مسلمہ کا کیا حشر ہوگا اس کے تصور سے روح تھرّا
جاتی ہے۔
اے خاصہٴ خاصان رسل وقت
دعا ہے امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے
نکلا تھا وطن سے پردیش میں
وہ آج غریب الغرباء ہے
***
____________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 07 ،
جلد: 93 رجب 1430 ھ مطابق جولائى
2009ء